Bombing of Girls School in Kabul: وزارت داخلہ نے بتایاکہ مرنے والوں میں زیادہ تر 11 سے 15 سال کی لڑکیاں ہیں۔ وہین نیوز ایجنسی رائٹرس نے دھماکے میں مرنے والوں کی تعداد 58 بتائی ہے۔ .
افغانستان کی راجدھانی میں بچوں کی یونیورسٹی میں کئے گئے بھیانک بم دھماکے میں مہلوکی کی تعداد بڑ ھ کر 58 ہو گئی ہے۔ وزارت داخلہ نے بتایاکہ مرنے والوں میں زیادہ تر 11 سے 15 سال کی لڑکیاں ہیں۔ وہین نیوز ایجنسی رائٹرس نے دھماکے میں مرنے والوں کی تعداد 58 بتائی ہے۔ وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آرائن (Tariq Arian) نے بتایا کہ سنیچر کو ہوئے اس دھماکے میں زخمیوں کی تعداد سو کے پار ہو گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسکول کی چھٹی ہونے کے بعد جب طلبا باہر نکل رہے ھے تب اسکول کے انٹری کرنے والی جگہ کے باہر تین دھماکے ہوئے۔ انہوں نے اس حملے کی مذمت کی اور بتایا کہ ابھی تک اس دھماکے کسی نے ذمے داری نہیں لی ہے۔ یہ دھماکے کابل کے مغربی حصے میں ہوئے۔ یہ ایک بہت بڑا شیعہ شیعہ مسلمان محلہ ہے جس پر اب تک کئی بار دولت اسلامیہ کے عسکریت پسندوں نے اکثر حملہ کیا ہے۔ وزارت تعلیم کی ترجمان نجیبہ ایرین نے رائٹرز کو بتایا کہ یہ اسکول لڑکیوں اور لڑکوں کے لئے ایک مشترکہ ہائی اسکول ہے، جو تین شفٹوں میں تعلیم حاصل کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ زخمیوں میں زیادہ تر طالبات ہیں۔
افغانستان میں یوروپی یونین کے مشن نے ٹویٹر پر کہا “کابل میں دشت برچی کے علاقے میں دہشت گردی کا ایک قابل مذمت اقدام ہے‘‘۔ “بنیادی طور پر لڑکیوں کے اسکول میں طلبا کو نشانہ بنانا ، یہ افغانستان کے مستقبل پر حملہ ہے۔”
وزارت صحت کے ترجمان غلام دستگیر نظری نے بتایا کہ ا واشنگٹن نے گیارہ ستمبر تک تمام امریکی فوجیوں کو انخلا کرنے کے منصوبوں کا اعلان کرنے کے بعد کابل میں حالات مزید ابتر ہوتے جارہے ہیں۔ افغان حکام کا کہنا ہے کہ طالبان نے ملک بھر میں حملے تیز کردئے ہیں۔ کسی گروپ نے ہفتہ کے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے باغی گروپ کے ملوث ہونے کی تردید کی اور واقعے کی مذمت کی۔